لغت سے تھوڑی سی جان پہچان رکھنے والا سنت ِلغوی اور بدعتِ لغوی میں ضرور فرق کرے گا، کیونکہ سنت اور چیز ہے اور بدعت لغوی اور چیز۔ سنت لغوی کو بدعت لغوی کہہ کر اس کے ساتھ’نئے پن‘ کا اِضافہ کرنے کو احمد رضاخان کی تجاہل عارفانہ تو کہہ سکتے ہیں مگر علمی کارنامہ ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ لغت کے مشہور و معروف امام ابن منظور لغوی سنت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’والأصل فیہ الطریقة والسیرة‘‘ [لسان العرب:۱۳؍۲۲۵]
٭ امام جرجانی لکھتے ہیں:
’’السنة فی اللغة السیرة مرضیة کانت أو غیر مرضیة‘‘
کویت سے ۴۵ ضخیم جلدوں میں شائع ہونے والے فقہی انسائیکلو پیڈیا میں مرقوم ہے:
’’السنة فی اللغة: الطریقة والعادة والسیرة حمیدة کانت أم ذمیمة والجمع سنن وفی الحدیث: من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فلہ أجرھا وأجر من عمل بھا بعدہ من غیر أن ینقص من أجورھم شیء ومن سنّ فی الإسلام سنة سیئة فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھا بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارھم شئ‘‘ [الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۵؍۲۶۳]
اردو دائرہ معارف اِسلامیہ میں مرقوم ہے:
’’سنت ؛بمعنی طریقہ، نہج، سیرت، راستہ وغیرہ متعدد معنوں میں مستعمل رہا ہے، لسان العرب میں بذیل مادہ ’سنن‘ طویل تفصیل دی گئی ہے اچھا طریقہ اور بُرا طریقہ مندرجہ ذیل حدیث میں سنت کے دونوں (لغوی) معنی مراد لئے گئے ہیں۔‘‘
من سنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة … وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة…
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ سنت لغوی سے مراد اچھا یا برا طریقہ، سیرت، راستہ، نہج اورعادت ہے جب کہ احمد رضاخان کی سنت لغوی کی تعریف یہ ہے’’نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ‘‘ اَرباب فکرودانش اور اَصحاب علم و فضل اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ احمد رضاخان نے سنت لغوی کی تعریف میں اپنی طرف سے لفظ ’نیا‘ لگا کر ’نئے پن‘ کا اضافہ کیا ہے اور اسی اضافہ کی بنیاد پر انہوں نے سنت لغوی کو بدعت لغوی قرا ردے کر ’سنت حسنہ‘ کو ’بدعت حسنہ‘ سے موسوم کیا ہے جبکہ ائمہ لغت وغیرہم نے اس ’نئے پن‘ کا سنت لغوی کے ساتھ اضافہ نہیں کیا۔ لہٰذا احمد رضاخان کی سنت لغوی کی تعریف اَئمہ لغت کی سنت لغوی کی تعریف کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ اگر احمد رضاخان کی سنت لغوی کی تعریف کودرست تسلیم کیا جائے تو پھر لازم آتا ہے کہ ائمہ لغت وغیرہم سنت لغوی کی تعریف کچھ یوں کرتے’’الطریقة الجدیدة،السیرة الجدیدة،العادة الجدیدة، الطریق الجدید،اور النہج الجدید‘‘ چونکہ اَئمہ لغت وغیرہم نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا احمد رضاخانکی تعریف غلط ثابت ہوئی چنانچہ سنت لغوی اور بدعت لغوی میں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
احمد رضاخان کا یہ کہنا کہ سنت لغوی کو آپ بدعت لغوی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اپنی من مانی تعبیر اور مبنی بر جہالت موقف ہے جس کی اہل لغت اور اہل علم کے ہاں کوئی وقعت نہیں ہے۔
احمد رضاخان کا یہ کہنا کہ سنت لغوی کو آپ بدعت لغوی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اپنی من مانی تعبیر اور مبنی بر جہالت موقف ہے جس کی اہل لغت اور اہل علم کے ہاں کوئی وقعت نہیں ہے۔
2-سنت لغوی اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔اس کے ہم قائل ہیں اور سنت لغوی کا اچھا یا برا ہونا حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ فرمان نبویﷺہے:
"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنة سَیِّئَة…" [صحیح مسلم:۲۳۵۱] اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں’سنت حسنہ‘ اور ’سنت سیئہ‘ سے لغوی سنت مراد ہے جو اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا سنت لغوی کے حسن و قبح ہونے میں ہمارا موقف ایک ہی ہے۔
3-جب ’سنت ‘ شرعی نہ ہوگی تو اسے بدعت کہیں گے۔ احمد رضاخان کا یہ موقف بالکل غلط ہے کیونکہ جو سنت شرعی نہ ہوگی اس کو سنت لغوی پر محمول کیا جائے گا۔ جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہے: " مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة…" یہاں ’سنت‘سے سنت شرعی مراد نہیں ہے لیکن ہم اس کو بدعت نہیںکہہ سکتے بلکہ سنت لغوی کہیں گے، کیونکہ بدعت اور سنت لغوی میں زمین آسمان کا سا فرق ہے، جیسا کہ پیچھے ذکر ہوچکاہے۔
احمد رضاخان نے جس بنیاد پر سنت لغوی کو بدعت لغوی کہا ہے جب وہ بنیا دہی کھوکھلی ہے تو پھر احمد رضاخان کا اس قدر اصرار کیوں ہے کہ جو سنت شرعی نہ ہوگی وہ بدعت ہوگی۔ وجہ صرف ایک ہے کہ وہ بدعت حسنہ کا سہارا لے کر اپنی تمام مروجہ بدعات (ضلالہ وسیئۃ) کو سند جواز دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوسکے۔ جیسے سنت ِرسول ہمیشہ حسنہ ہوتی ہے اس کے سیئہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بالکل ایسے ہی بدعت بھی ہمیشہ سیئہ ہوتی ہے اس کے حسنہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے ’’نعمة البدعة ھذہ‘‘کے قول کو ہم بدعت لغوی پر ہی محمول کریں گے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ سنت لغو ی کو بدعت لغوی یا بدعت حسنہ پر محمول کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
4-بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے۔
5-بدعت حسنہ اصلاً سنت ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سنت حسنہ کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ کی اصل نہیں بنتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب احمد رضاخان کے نزدیک بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے اور بدعت حسنہ کو اصلاً سنت بھی کہہ سکتے ہیں توپھر آپ براہ راست ’’سنہ حسنہ‘‘ کو بدعت حسنہ کہہ کر سنت حسنہ کا ترجمہ بدعت حسنہ میں کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اور بدعت حسنہ کو سنت رسول قرار دینے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟
لہٰذا احمد رضاخان کوچاہئے تھا کہ مذکورہ حدیث " مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة "کا ترجمہ اس طرح کرتے: ’’جس نے اسلام میں بدعت حسنہ ایجاد کی اور جس نے اسلام میں بدعت سیئہ ایجاد کی… وغیرہ لیکن احمد رضاخان نے یہ ترجمہ کہیں بھی نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد رضاخان بھی تردد و احتمالات کا شکار تھے ۔
لہٰذا احمد رضاخان کوچاہئے تھا کہ مذکورہ حدیث " مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة "کا ترجمہ اس طرح کرتے: ’’جس نے اسلام میں بدعت حسنہ ایجاد کی اور جس نے اسلام میں بدعت سیئہ ایجاد کی… وغیرہ لیکن احمد رضاخان نے یہ ترجمہ کہیں بھی نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد رضاخان بھی تردد و احتمالات کا شکار تھے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب بدعت حسنہ اصلاً سنت ہے پھر آپ اُس کو بدعت حسنہ کیوں کہتے ہیں۔ براہ راست اس کو سنت سے موسوم کیوں نہیں کرتے کیونکہ سنت بہرحال بدعت حسنہ سے اچھا اور جامع لفظ ہے اس کے علاوہ اگر آپ بدعت حسنہ کہیں گے تو عین ممکن ہے کہ بعض لوگ بدعت حسنہ کے جواز کے قائل نہیں ہوں گے لیکن جب آپ بدعت حسنہ کو سنت کہیں گے تو بھلا سنت کا کون انکاری ہوگا۔
ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی ہو گی کہ مذکورہ حدیث " مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة…" سے کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ کے جواز پر دلیل و اصل نہیں پکڑی جاسکتی۔
اس کی مزید تفصیل حسب ذیل ہے:
اس کی مزید تفصیل حسب ذیل ہے:
1-قرآن حکیم کی کسی آیت یا رسول کریمﷺ کی کسی حدیث کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے سیاق وسباق کابہت حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ}کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا خود حکم دیا ہو پھر خود ہی اس پر ہلاکت و بربادی کی وعید شدید سنائی ہو؟ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں وہ یہ کہ جب ہم اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق پرنظر ڈالتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ وعید شدید ان کیلئے ہے جن میں حسب ذیل خامیاں ہوں گی۔
{اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَائُ ونَ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ}[الماعون :۵،۷]
لہٰذا جب ہم مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہیں تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں بدعت حسنہ کا جواز پکڑنے والوں کی تعبیر و تفسیر دُھنی ہوئی روئی کی مانند رہ جاتی ہے متن حدیث پیش خدمت ہے:
’’عن جریر بن عبد اﷲ قال: کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ! فِیْ صَدْرِ النَّہَارِ، قَالَ فَجَائَ ہُ قَوْمٌ حُفَاۃٌ عُرَاۃٌ مُجْتَابِیْ النِّمَارُ أَوِ الْعَبَائُ،مُتَقَلِّدِیْ السُّیُوْفِ،عَامَّتُھُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ کُلُّھُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ! لِمَا رَأی بِھِمْ مِنَ الْفَاقَة فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ،فَأمَرَ بِلَالًا،فَأذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلّٰی،ثُمَّ خَطَبَ،فَقَالَ{یٰاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَة، إلی آخیر الآیۃ إنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا} والآیة التی فی الحشر: { اتَّقُوْا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اﷲَ} تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِیْنَارِہِ مِنْ دِرْھَمِہِ مِنْ ثَوْبِہِ مِنْ صَاع بُرِّہِ مِنْ صَاعِ تَمْرِہِ۔ حَتّٰی قَالَ۔ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَة قَالَ: فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْھَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ:ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّی رَأیْتُ کَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ،حَتّٰی رَأیْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اﷲِ! یَتَھَلَّلُ کَأَنَّہُ مُذْھَبَة فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ! "مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة فَلَہُ أَجْرَھَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِِّئَة کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ" [صحیح مسلم :۱۰۱۷)
اگر مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق اور سبب میں تھوڑا سا تعمق اور تفکر کیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس واقعہ میں انصاری صحابی نے صدقہ کو جاری کیا تھا اور صدقہ تو بذات خود مشروع امر ہے کیا اس صحابی کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس نے بدعت حسنہ کو ایجادکیا ہے؟غوروفکر کرنا چاہئے کہ رسول اللہﷺ نے "مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة "کس موقع پر ارشاد فرمایا ہے اور آپ کے اس فرمان کا سبب اور سیاق و سباق کیا تھا؟
بات واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے پہلے صدقہ پر ترغیب دی پھر اس انصاری صحابی نے کھجوروں کی بوری صدقہ کردی گویا کہ صدقہ جو مشروع امر تھا اس کو اس صحابی نے اپنے عمل وفعل کے ساتھ جاری کیا پھر لوگوں نے اس صحابی کی اتباع کی۔ لہٰذا یہ واقعی ’سنت حسنہ‘ اچھا طریقہ تھا لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس صحابی نے اپنے طر ف سے طریقہ اختراع کیا اور وہ بدعت حسنہ بن گئی بلکہ اس صحابی نے تو ایک مشروع امر کو عملی شکل دے کر جاری کیا تھا۔
امام شاطبی رح فرماتے ہیں:
’’لیس المراد بالحدیث الاستنان بمعنی الاختراع،وإنما المراد بہ العمل بما ثبت بالسنة النبویة وذلک لوجھین: أحدھما: أن السبب الذی جاء لأجلہ الحدیث ھو الصدقة المشروعة … حتی بتلک الصرة فانفتح بسببہ باب الصدقة علی الوجہ الأبلغ فسرّ رسول اﷲ! حتی قال:"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة " فدل علی أن السنة ھاھنا مثل ما فعل ذلک الصحابی، وھو العمل بما ثبت کونہ سنة فظھر أن السنة الحسنة لیست بمبتدعة والوجہ الثانی،أن قولہ: من سن سنة حسنة… ومن سن سنة سیئة، لایمکن حملہ علی الإختراع من أصل، لأن کونھا حسنة أو سیئة لایعرف إلا من جھة الشرع،لأن التحسین والتقبیح مختص بالشرع لا مدخل للعقل فیہ وھو مذھب جماعة أھل السنة وإنما یقول بہ المبتدعة ، أعنی التحسین والتقبیح بالعقل،فلزم أن تکون ’السنة‘ فی الحدیث: إما حسنة فی الشرع وإما قبیحة بالشرع،فلا یصدق إلا علی مثل الصدقة المذکورۃ وما أشبھھا من السنن المشروعة‘‘ [مأخوذ من البدعۃ وأثرھا السیئ فی الأمۃ: ص۷۰ والإعتصام: ۱؍ ۱۸۲]
لہٰذا ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ’’سنت حسنہ‘‘ سے مراد کسی مشروع عمل کو جاری کردینا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے اگر کوئی مسلمان عصر حاضر میں نبی کریمﷺ کی کوئی متروکہ سنت کو جاری کرتا ہے یا مہجورہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اس کے اس فعل کو ’سنت حسنہ‘ کہیں گے نہ کہ ’بدعت حسنہ‘ مثال کے طور پر بعض ممالک مثلاً شام اور پاکستان وغیرہ میں کچھ لوگ مساجد میں’نماز عیدین‘ ادا کرتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ سنت رسولﷺ ہے پھر کچھ متبعین سنت ، لواء سنت تھام کر عیدگاہوں، میدانوں، گراؤنڈوں اور پارکوں میں ’عیدین کی نماز ‘ ادا کرتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی اس متروکہ و مہجورہ سنت کو جاری و زندہ کرتے ہیں تو ان کے بارے میں یہ کہا جائے گا ’’سنوا في الإسلام سنة حسنة‘‘ کہ انہوں نے اسلام میں سنت حسنہ کو جاری کیا ہے یعنی سنت سے ثابت شدہ عمل کو جاری کیا ہے ان کے اس عمل کو ’بدعت حسنہ‘ موسوم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ سنت حسنہ وہ ہوتی ہے جس کی اصل نص صحیح سے مشروع ہو اور لوگوں نے اس پر عمل کرنا ترک کردیا ہو پھر کوئی لوگوں کے درمیان اس کی تجدید کرتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت نماز تراویح کی سنت کو جاری اور زندہ کیا تھا۔
اگر اس بات پر مصر ہیں کہ’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ ہی مراد ہے تو ہم نہایت ہی ادب سے مندرجہ ذیل جوابات دیں گے:
1۔’’من سن فی الإسلام سنة حسنة ‘‘ کا قائل بھی وہی ہے جو ’’کل بدعة ضلالة‘‘ کا قائل ہے۔ لہٰذا صادق و مصدوق نبیﷺسے ایسے قول کا صدور ناممکن ہے جو آپ کے دوسرے قول کی تکذیب کرے اور کلام رسول اللہﷺمیں تناقص ابداً ناممکن ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ لائق نہیں کہ ہم نبی کریم کی ایک حدیث پرتو عمل پیرا ہوں اور دوسری حدیث سے اعراض کریں۔ اس صورت میں ہم { أفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ } کے مصداق ٹھہریں گے۔
2۔نبی کریمﷺ نے "مَنْ سَنَّ" فرمایا ہے’’من ابتدع‘‘ نہیں فرمایا۔ سن اور ابتداع میں زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر آپؐ نے " فِیْ الإِسْلَامِ" فرمایا ہے جبکہ بدعات خواہ حسنہ ہی کیوں نہ ہوں ان کا اسلام سے کیا واسطہ؟ پھر آپﷺ نے حسنۃ فرمایا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں کہیں بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔
3- سلف صالحین سے کسی سے منقول نہیں کہ انہوں نے ’سنت حسنہ‘ کی تعبیر و تفسیر ’بدعت حسنہ‘ سے کی ہو جس کو بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا ہے ۔لہٰذا احمد رضاخان کا ’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ پر استدلال باطل و ناحق ہے۔
No comments:
Post a Comment